— خوش خبری کا بیک گراؤنڈ —

پاکستانی انٹرنيشنل سٹوڈنٹس کو (SDS) Students Direct Stream سکيم کے تحت کينيڈا ميں آکر پڑھنے کی اجازت ملنے کی خبر يقيناخوش آئين ہے

اس خبر کے آنے کے بعد درجنوں ايسے دعويدار پيدا ہو جايں گے جو اس کام کا کريڈٹ لينے کی کوشش کريں گے اور جن لوگوں ٗنے اس سلسلے ميں واقعی عملی طور پر کچھ کام کياہے ان سب کو سائيڈ لائن کر ديں گے

سب سے پہلے يہ واضح کر دوں کہ اس کام کے ہونے ميں حکومت پاکستان يا پاکستان کی کسی بھی سياسی پارٹی کا کوئی عمل دخل نہيں ہے – بحثيت ميڈيا ہمارا بھی صرف اتنا ہی رول ہے کہ ہم جب کبھی موقع ملتا تو ٹروڈو حکومت کے عہديداران سے شکوہ کرتے کہ پاکستانی طلبا کو داخلے کی وہ سہولتيں کيوں ميسر نہيں جو کہ انڈيا ويتنامُ چائنہ اور فلپائن کو دستياب ہيں يعنی کہ آٹھ ہفتوں ميں ويزے کا اجرا اور سب طلبا کو داخلے کے برابر مواقع –
يہاں يہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت کينیڈا ميں 34% بھارتی طلبا ہيں جبکہ پاکستا نی ايک فيصد سے بھی کم ہيں-

يہ بتانا بھی ضروری ہے کينيڈا ميں نہ تو کوئی پاکستانی کميونٹی سنٹر ہے اور نہ ہی کوئی کميونٹی ليڈر

خير چھوڑئیے اصل بات پر آتے ہيں – پاکستانی طلبا کے کينيڈا ميں داخلے کا مسئلہ جب يہاں سےمنتخب ہونے والی پاليمينٹيرنز اقرا خالد صاحبہ اور سلمی زاہدصاحبہ کے ذريعے متعلقہ اتھارٹيز تک پہنچايا گيا وہ مسلسل کوشش کرتی رہیں اور گاہے گاہے اس ايشو کو اٹھاتی رہيں
اور پھر ايک روز ايک غير پاکستانی سيا نا سياستدان ايک عجيب و غريب سچائی سامنے لے کر آيا اور وہ سچائی يہ تھی کہ پاکستانی کميونٹی کی financial contribution تو ہے نہيں اور مراعات ان کمينوٹيز جيسی مانگتے ہيں جو لاکھوں ڈالرز کی donations ديتے ہيں –
کوئی دو ڈھائی سال پہلے اس بات کا تذکرہ چند پاکستانی صاحب ثروت لوگوں سے کيا گيا کچھ حضرات فيصلہ نہ کر سکے کہ کيا کريں کيسے کريں- اسی دوران پتہ چلا کہ عدنان بشير نے پہل کردی ہے يہ صاحب رئیل سٹيٹ بزنس سے وابستہ ہيں ايک روزانکا پيغام آيا کہ انہوں نے پاکستانی کميونٹی کی جانب سے اميگريشن مسٹر احمد حسين کی ليڈ ميں وزير اعظم جسٹن ٹروڈو کا فنڈ ريزنگ ڈنر رکھ ديا ہے يہاں يہ بات قابل ذکر ہے کہ احمد حسين ايتھوپن نژاد کينيڈين ہيں اور وہ اس بات پر بڑے خوش تھے کہ یہ بڑا کامياب پروگرام رہا اسکی کاميابیُ کا کريڈٹ عدنان بشير اور انکی پوری ٹيم با لخصوص واجد ملک اور عارف شيخ کو جاتا ہے اس ڈنر سے تقريبا دو لاکھ ڈالرز اکٹھے کر کے پارٹی فنڈز ميں دے دئے گئے اسکے تقريبا ايک ڈيڑھ سال بعد وزير اعظم ٹروڈو کا ايک اور فنڈ ريزنگ ڈنر رکھ ديا گيا اور اس ميں تقريب تين لاکھ ڈالرز کی ڈونيشن دی گئی – اسطرح سے وزير اعظم اور انکی ٹيم کو پيغام ديا گيا کہ ہم بطور کميونٹی کسی سے بھی کم اہميت نہيں رکھتے- دوسری طرف اميگريشن منسٹر اپنے ان پاکستانی دوستوں کے اور بھی زيادہ قريب ہو گئے اور وزیر اعظم سے ڈائريکٹ ہونے کے بعد اب حالات بدلنے لگے – کميونٹی مسائل اوپر تک پہنچانے سے پہلے ہی نچلا سٹاف انہيں حل کر نے لگا- اپھر ايک دن اميگريشن منسٹر کے سامنے پاکستانی طلبا کا مسئلہ رکھ دیا گيا تو اس نے اسے حل کرنے کا وعدہ کيا اسکے بعد پچھلے رمضان ميں اسی ميز بان ٹيم نے جسٹن ٹروڈو کو افطار ڈنر پر بلا ليا اور
يہ پہلا موقع تھا کہ وزير اعظم ٹروڈو نے کسی پاکستانی افطار ڈنر ميں شمولیت کی ہو اس ڈنر کا فائدہ يہ ہوا کہ پاکستانی کميونٹی کے وقار ميں مزيد اضافہ ہوگيا – اب پاکستانی طلبا کے حوالے سے ايک مسئلہ پيدا ہو گيا وہ يہ کہ کينيڈا ميں کوئی بھی ايسا بنک نہيں ہے جو پاکستانی انٹر نيشنل سٹونڈنٹس کی فيسيں وغيرہ جمع کرنے کی حامی بھرتا ہو اس موقع پر پاکستانی قونصل جنرل عمران صديقی نے گائیڈ کيا کہ حبيب کينيڈين بنک سے بات چيت کی جائے اور اسطرح سے حبيب کينيڈين بنک نے حامی بھر لی کہ پاکستانی انٹر نيشنل طلبا وہاں پاکستان ميں انکی کسی بھی برانچ ميں اکانٹ کھول کر داخلہ فيس اور ديگر واجبات جمع کرواديں وہ کينيڈا ميں ٹرانسفر ہو جائئیں گے ادا کر دئیے جائيں گے آج کے اعلان کے بعد اب ہمارے بچے نہ صرف کينيڈا ميں پڑھ سکيں گے بلکہ پڑھائی کے بعد ورک پرمٹ پھر پی آر اور پھر نيشنيلٹی بھی لے سکيں گے
کالم ختم کرنے سے پہلے يہ درخواست کرونگا کہ کينيڈین اميگريشن کی سرکاری ویب سائٹ پر ساری راہنمائی موجود ہے اگر پھر بھئ کسی اور کا مشورہ درکار ہے توآپکی مرضی – ————شکريہ

اپنا تبصرہ بھیجیں